قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ
کہہ دو کہ اے میرے ایمان والے بندو! اپنے رب سے ڈرتے رہو (١) جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے نیک بدلہ ہے (٢) اور اللہ تعالیٰ کی زمین بہت کشادہ ہے صبر کرنے والے ہی کو ان کا پورا پورا بیشمار اجر دیا جاتا ہے۔
(9) اس آیت کریمہ میں نبی کریم (ﷺ) کی زبانی مومنوں کو ہر حال میں اپنے رب سے ڈرنے کی تعلیم دی گئی ہے، آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے وہ لوگو جنہوں نے اللہ کی وحدانیت کی تصدیق کی ہے ! اپنے رب سے ڈرتے رہو، اس کی بندگی کرو، اس کی نافرمانی سے بچتے رہو اور اس کے ساتھ غیروں کو شریک نہ بتاؤ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے فوائد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ اس دنیا میں عمل صالح کریں گے، اللہ تعالیٰ آخرت میں انہیں جنت دے گا اور جن پر وطن کی زمین تنگ ہوجائے اور اہل کفر کے ظلم و استبدا کی وجہ سے اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہوجائے، انہیں اللہ تعالیٰ نے اس سر زمین سے ہجرت کر کے ایسی جگہ چلے جانے کا حکم دیا ہے جہاں وہ باآسانی اس کی عبادت کرسکیں، انبیاء و صالحین کی یہی سنت رہی ہے سورۃ النساء آیت (97) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا﴾ ” قیامت کے دن ایسے لوگوں سے فرشتے کہیں گے : کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟“ بعض مفسرین نے ﴿أَرْضُ اللَّهِ﴾سے مراد جنت لی ہے اور کہا ہے کہ یہاں مقصود مومنوں کو حصول جنت کی ترغیب دلانی ہے۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی بغیر صفت صبر کے ممکن نہیں، اس لئے آیت کے آخر میں صبر کی فضیلت اور اللہ کے نزدیک اس کے عظیم اجر و ثواب کا ذکر کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ ترک قوم و وطن کی اذیت برداشت کریں گے اور اللہ کی رضا کی خاطر کڑوے گھونٹ برداشت کریں گے، اللہ انہیں بے حساب اجر و ثواب عطا کرے گا، یعنی جنت دے گا جس کی نعمتیں ان گنت اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہوں گی۔