وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِن قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلَّ عَن سَبِيلِهِ ۚ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا ۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ
اور انسان کو جب کبھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ خوب رجوع ہو کر اپنے رب کو پکارتا ہے، پھر جب اللہ تعالیٰ اسے اپنے پاس سے نعمت عطا فرما دیتا ہے تو وہ اس سے پہلے جو دعا کرتا تھا اسے (بالکل بھول جاتا ہے (١) اور اللہ تعالیٰ کے شریک مقرر کرنے لگتا ہے جس سے (اوروں کو بھی) اس کی راہ سے بہکائے، آپ کہہ دیجئے! کہ اپنے کفر کا فائدہ کچھ دن اور اٹھالو، (آخر) تو دوزخیوں میں ہونے والا ہے۔
(7) مشرک کے کردار میں بڑا تضاد ہوتا ہے، جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور یقین ہوجاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اسے ٹال نہیں سکتا تو دونوں ہاتھ اٹھا کر اور گڑ گڑا کر دعا کرتا ہے کہ میرے رب تو میری تکلیف دور کر دے اور جب اللہ اس کی تکلیف دور کردیتا ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے اور پہلے کی طرح غیروں کی پرستش کرنے لگتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبانی اس سے کہا کہ تم اس دنیاوی زندگی سے کچھ دنوں کے لئے لطف اٹھا لو، مرنے کے بعد تمہارا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت کے اس جزو میں اہل کفر اور اہل شرک کے لئے بہت بڑی دھمکی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ ابراہیم آیت (30) میں فرمایا ہے : ﴿قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ﴾ ” آپ کہہ دیجیے کہ خوب مزے کرلو، تمہارا انجام تو آخر جہنم ہی ہے۔ “