قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ ۖ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ ۗ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ۩
آپ نے فرمایا! اس کا اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری ایک دنبی ملا لینے کا سوال بیشک تیرے اوپر ایک ظلم ہے اور اکثر حصہ دار اور شریک (ایسے ہی ہوتے ہیں کہ) ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں (١)، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اور ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں (٢) اور (حضرت) داؤد (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے، پھر تو اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گر پڑے اور پوری طرح رجوع کیا۔
داؤد (علیہ السلام) نے کہا : اس نے تمہاری بکری مانگ کر تم پر زیادتی کی ہے، اس لئے کہ ننانوے بکریوں کے رہتے ہوئے تمہاری بکری زبردستی لینے کی اسے ضرورت نہیں تھی، مزید کہا کہ بہت سے شرکاء اسی طرح اخوت و صداقت کا پاس نہیں رکھتے اور زیادتی کر بیٹھتے ہیں حالاانکہ برادری کا تقاضا تو یہ ہے کہ اپنے بھائی کو اپنے آپ پر ترجیح دیں البتہ جو لوگ ایمان و تقویٰ والے ہوتے ہیں وہ ایسی زیادتی نہیں کرتے ہیں اور ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں دونوں کے واپس چلے جانے ک بعد داؤد (علیہ السلام) کے ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ قضیہ اللہ کی طرف سے ان کا امتحان تھا،