سورة آل عمران - آیت 105

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا انہی لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

75۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہود و نصاری کی طرح مختلف گروہوں میں بٹ جانے سے منع فرمایا ہے، جنہوں نے حق سے روگردانی کر کے خواہش نفس کی اتباع کی، اور ایک دوسرے سے حسد کیا، یہاں تک کہ انبیاء کرام کو بھی انہوں نے آپس میں بانٹ لیا، دین میں بدعت کو راہ دی، اور اس طرح حق بات کے واضح دلائل آجانے کے باوجود ان کے آپس میں حسد و عداوت اور بغض و عناد پیدا ہوگیا، اور ان کے دل مختلف ہوگئے۔ امام فخر الدین رازی نے اس آیت کے ضمن میں لکھا ہے کہ ان میں سے ہر ایک دعوی کرنے لگا کہ وہ حق پر ہے، اور اس کا مخالف باطل پر ہے، اس کے بعد لکھا ہے کہ اگر انصاف کے ساتھ غور کریں گے تو دیکھیں گے کہ اس زمانے کے اکثر علماء میں بھی یہ صفت پیدا ہوگئی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں معاف کرے اور ہمارے حال پر رحم کرے، علمائے سلف میں یہ صفت نہیں پائی جاتی تھی، صحابہ کرام قرآن و سنت کی روشنی میں فتاوے دیتے تھے اور اگر کبھی ان کے درمیان کسی مسئلہ میں اختلاف ہوتا تھا تو ان کے دلوں میں فرق نہیں آتا تھا۔ مسلمانوں میں دلوں کا اختلاف تقلید جامد اور فقہی مذاہب کی اندھی عصبیت کے بعد پیدا ہوا۔ قرآن و سنت سے جتنا دور ہوتے گئے، اتنا ہی یہ مرض جڑ پکڑتا گیا، اور نوبت ایک دوسرے کی تکفیر و تضلیل تک پہنچ گئی۔ بعض کج فہموں اور امت میں اختلاف کو راہ دینے والوں نے اختلاف امتی رحمۃ جیسی ضیعف اور کمزور حدیث کا سہارا لینا چاہا، اس حدیث کی کوئی صحیح سند نہیں ہے۔ اسے طبرانی اور بیہقی نے المدخل میں ابن عباس (رض) سے سند ضعیف کے ساتھ مرفوعاً روایت کی ہے۔ اس حدیث کی سند تو کمزور ہے ہی، اس کے علاوہ بہت سی قرآنی آیات اور صحیح احادیث کے مخالف ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ۔ کہ لوگ ہمیشہ آپس میں اختلاف کرتے رہیں گے، سوائے اس آدمی کے جس پر اللہ رحم کرے۔ اس آیت میں اختلاف نہ کرو، ورنہ تمہارے دل مختلف ہوجائیں گے۔ (مسلم)