وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا ۚ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ
اور لوگوں نے تو اللہ کے اور جنات کے درمیان بھی قرابت داری ٹھہرائی (١) ہے، اور حالانکہ خود جنات کو معلوم ہے کہ وہ (اس عقیدے کے لوگ عذاب کے سامنے) پیش کئے جائیں گے (٢)
(34) آیت (149) میں کفار عرب کی جس بات کی تردید کی گئی ہے اور جس پر ان کی زجر و توبیخ کی گئی ہے، اسی کا یہاں صراحت کے ساتھ انکار کیا گیا ہے کہ وہ لوگ اللہ اور جنوں کے درمیان رشتہ ازدواج بتاتے ہیں حالانکہ شیاطین الجن جانتے ہیں کہ قیامت کے دن ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اگر اللہ سے ان کا رشتہ ہوتا تو وہ انہیں آگ کا عذاب کیسے دیتا، رشتہ داری کا تو تقاضا تھا کہ اللہ انہیں عذاب نہ دیتا معلوم ہوا ہے کہ اللہ کے بارے میں یہ بدترین جھوٹ ہے بہت سے مفسرین نے یہاں ” الجنۃ“ سے مراد فرشتے لئے ہیں اور آیت کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ کفار عرب اللہ اور فرشتوں کے درمیان رشتہ بتاتے ہیں۔ یہ بات اللہ کے خلاف افترا پردازی ہے۔ فرشتے بھی جانتے ہیں کہ جو کفار ایسی بات کہتے ہیں ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔