وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا، اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ
69: اجمالی طور پر آدم کی فضیلت بیان کرنے کے بعد، اب اس کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ نیز فرشتوں کے سوال میں اس طرف اشارہ تھا کہ وہ آدم سے افضل ہیں اسی لیے اللہ نے بتانا چاہا کہ آدم اس علم کی بدولت جو اللہ نے انہیں دیا ہے ان سے افضل ہیں اور یہ کہ اللہ ہی حکمتوں کو زیادہ بہتر جانتا ہے۔ اللہ نے تمام چیزوں سے متعلق ضروری علم ان کے اندر ودیعت کردی۔ اور (تمام چیزوں) سے مراد وہ ساری مخلوقات اور وہ سب اشیاء ہیں جو دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ 70: ابن جریر کہتے ہیں کہ ان آیات میں یہود مدینہ کو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے وہ اس طرح کہ اللہ نے ان آیات میں اپنے نبی کو وہ باتیں بتائی ہیں جن کا علم بغیر وحی کے ممکن نہیں اور یہ دلیل ہے اس بات کی کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سچے اور ان کا دین سچا ہے۔ اس لیے یہود مدینہ کو ان پر ایمان لے آنا چاہیے۔ 71: اللہ نے فرشتوں سے ان اشیاء کے نام پوچھے، حالانکہ اللہ جانتا تھا کہ وہ ان کے نام بتانے سے عاجز ہیں۔ اس میں فرشتوں کی ایک طرح سے سرزنش تھی اور اس بات کا مزید اظہار کہ وہ خلیفہ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔