سورة يس - آیت 77

أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا انسان کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے؟ پھر یکایک وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

38 -ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور حاکم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے (اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے) کہ عاص بن وائل سہمی ایک گلی سڑی ہڈی لئے رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آیا اور اسے اپنی چٹکی سے مسل کر پھینک دیا اور کہا، اے محمد (ﷺ) کیا اب اسے اللہ دوبارہ زندہ کرے گا؟ تو آپ نے فرمایا، ہاں ! اسے دوبارہ اٹھائے گا اور تمہیں بھی وہ موت دے گا پھر زندہ کرے گا، پھر جہنم میں داخل کر دے گا، اسی واقعہ کے بعد سورۃ یٰسین کی یہ آخری آیتیں نازل ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ انسان کو ایک حقیر نطفہ سے پیدا کرتا ہے پھر اسے بڑا کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ بھرپور جوان آدمی بن جاتا ہے، لیکن وہ اپنے کبر و غرور کے نشے میں اپنی حقیقت کو بھول جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیروں کو شریک بنانے لگتا ہے اور کہنے لگتا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ مر جانے کے بعد لوگ قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جائیں گے حالانکہ اسے سوچنا چاہئے کہ جس قادر مطلق نے اسے پہلی بار ایک نطفہ حقیر سے پیدا کیا ہے وہ یقیناً اس پر قادر ہے کہ اسے دوبارہ پیدا کرے۔