إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ
بیشک ہم مردوں کو زندہ کریں گے (١) اور ہم لکھتے جاتے ہیں اور وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے (٢)
8 -اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں کہ وہ قیامت کے دن تمام مردوں کو زندہ کرے گا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ کافروں میں سے جن کے دلوں کو چاہتا ہے ایمان کے ذریعہ زندہ کردیتا ہے، جن پر گمراہی کی وجہ سے موت طاری ہوچکی تھی تو پھر وہ حق کو قبول کرلیتے ہیں اور باری تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام اچھے اور برے اعمال کو لکھ لیتا ہے اور ان کی ان اچھی اور بری سنتوں کو بھی لکھ لیتا ہے جو ان کے ذریعہ دنیا میں جاری ہوجاتی ہیں اور انہیں ان کا ثواب یا گناہ ملتا رہتا ہے۔ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ یہاں ” آثار“ سے مراد نماز کے لئے مساجد کی طرف جانے والوں کے قدموں کے آثار ہیں نحاس نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے، اس لئے کہ آیت کا سبب نزول یہی ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ چونکہ اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے نہ کہ خصوص سبب کا، اس لئے ابن آدم کے تمام اچھے اور برے آثار داخل ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد فرمایا ہے کہ ہم نے لوح محفوظ میں ہر چیز اور ہر عمل کو گن رکھا ہے۔ بعض نے ” امام مبین“ سے انسانوں کے نامہ ہائے اعمال مراد لئے ہیں، یعنی آدمی کا ہر عمل اس کے صحیفہ اعمال میں درج کرلیا جاتا ہے۔