إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو (١)۔
(45) اس آیت کریمہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم (ﷺ) آسمان و زمین دونوں جگہ لائق صد احترام ہیں، آسمان میں اللہ تعالیٰ اور فرشتے ان پر درود بھیجتے ہیں اور زمین میں تمام اہل ایمان سے مطلوب ہے کہ ان پر درود و سلام بھیجتے رہیں۔ بخاری نے ابوالعالیہ سے روایت کی ہے کہ ” اللہ کے درود“ سے مراد، فرشتوں کی محفل میں آپ کا ذکر خیر ہے اور ” فرشتوں کے درود“ سے مراد آپ (ﷺ) کے لئے برکت کی دعا ہے۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ” جلاء الافہام“ میں ” صلاۃ“ یعنی درود کا معنی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ بخاری نے کعب بن عجرہ (رض) سے اور احمد، ابوداؤد نسائی، ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم نے ابو مسعود بدری (رض) سے روایت کی ہے، صحابہ کرام نے آپ (ﷺ) سے پوچھا کہ ہم آپ کو سلام کرنا تو جانتے ہیں، درود کیسے بھیجیں، تو آپ نے کہا : کہو :” اللھم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی ابراہیم انک حمید مجید، اللھم بارک علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم و علی آل ابراہیم انک حمید مجید“ اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ نماز کے آخری تشہد میں درود پڑھنا واجب ہے، جو اسے جان بوجھ کر چھوڑ دے گا اس کی نماز صحیح نہیں ہوگی۔ امام احمد اور ابن راہویہ کی بھی یہی رائے ہے، لیکن جمہور کی رائے ہے کہ واجب نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے اور اگر کوئی اسے چھوڑ دے گا تو اس کی نماز ہوجائے گی۔ قرطبی نے علمائے اسلام کا اس پر اتفاق نقل کیا ہے کہ ہر مسلمان پر عمر بھر میں ایک باردرود بھیجنا واجب ہے، باقی حالتوں میں مستحب ہے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کا ذکر جب بھی آئے آپ پر درود بھیجنا واجب ہے تفصیل کے لئے دیکھیے۔ حافظ ابن القیم کی ” جلاء الافہام“ اور حافظ ابن کثیر کی ” تفسیر القرآن العظیم“