يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ۖ فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا
اے مومنوں جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو (١) پس تم کچھ نہ کچھ انھیں دے دو (٢) پھر بھلے طریقے سے رخصت کر دو (٣)۔
(39) زید بن حارثہ اور زینب بنت حجش کے نکاح و طلاق کا واقعہ اور اس کے ضمن میں متعدد احکام بیان کرنے کے بعد مناسب رہا کہ مسلمانوں کے لئے ایسی عورت کی عدت کا حکم بیان کردیا جائے جسے نکاح کے بعد اور مباشرت سے پہلے طلاق دے دی جائے۔ ایسی عورت پر عدت گذارنا واجب نہیں ہے، اس لئے کہ عورت عدت اس لئے گذارتی ہے تاکہ یوین ہوجائےکہ اس کے رحم میں کوئ بچہ نہیں ہے،اور مذکورہ بالاصورت میں یقینی طور پر عورت کا رحم بچہ کے وجود سے پاک ہےاور اگر اس کا مہر مقرر کردیا گیا تھا تو اسے نصف مہر ملے گا اور کچھ مال بطور دلجوئی دے دینا مستحب ہے اور اگر اس کا مہر مقرر نہیں تھا تو شہر کی مالی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے کچھ مال دے دیا جائے گا اور بغیر اذیت پہنچائے اسے اس کے گھر والوں کے پاس جانے دیا جائے گا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے بہت سے احکام ماخوذ ہیں : ۔1 کبھی کلمہ نکاح بول کر صرف عقد مراد لیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس معنی پر دلالت کرنے والی اس آیت سے زیادہ صریح کوئی آیت نہیں ہے۔ ۔2 مباشرت سے پہلے بیوی کو طلاق دینی جائز ہے۔ ۔3 ابن عباس، ابن المسیب، حسن بصری اور زین العابدین وغیرہم نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نکاح سے پہلے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے، نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ نکاح سے قبل طلاق نہیں ہے۔ ۔4 علماء کا اتفاق ہے کہ جس عورت کو مباشرت سے پہلے طلاق دے دی جائے اس پر کوئی عدت نہیں ہے۔ وہ طلاق کے بعد فوراً شادی کرسکتی ہے۔ البتہ مباشرت سے پہلے شوہر کا انتقال ہوجائے تو عورت چار ماہ دس دن عدت گذارے گی۔ ۔5 آیت میں فَمَتِّعُوهُنَّĬ سے مراد یہ ہے کہ اگر ایسی عورت کا مہر مقرر ہوگا تو اسے نصف مہر ملے گا اور اگر اس کا کوئی مہر مقرر نہیں ہوگا تو اسے کچھ مال دے دیا جائے گا۔