سورة الأحزاب - آیت 20

يَحْسَبُونَ الْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا ۖ وَإِن يَأْتِ الْأَحْزَابُ يَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُم بَادُونَ فِي الْأَعْرَابِ يَسْأَلُونَ عَنْ أَنبَائِكُمْ ۖ وَلَوْ كَانُوا فِيكُم مَّا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

سمجھتے ہیں کہ اب تک لشکر چلے نہیں گئے (١) اور اگر فوجیں آجائیں تو تمنائیں کرتے ہیں کہ کاش! وہ صحرا میں بادیہ نشینوں کے ساتھ ہوتے کہ تمہاری خبریں دریافت کیا کرتے، اگر وہ تم میں موجود ہوتے (تو بھی کیا ؟) نہ لڑتے مگر برائے نام (٢)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(17) منافقین خوف اور بزدلی کی وجہ سے لشکر کفار کے واپس چلے جانے کے بعد بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ابھی وہ لوگ آس پاس ہی موجود ہیں اور ممکن ہے دوبارہ واپس آجائیں اور اگر واقعی دشمن واپس آجائے تو ان کی تمنا ہوگی کہ کاش وہ لوگ بادیہ نشینوں کے پاس چلے گئے ہوتے تاکہ جنگ میں شریک ہونے کی نوبت نہ آتی اور وہیں سے آنے جانے والوں سے مسلمانوں کے بارے میں دریافت کرتے کہ لشکر کفار سے مڈبھیڑ میں ان کا انجام کیا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ مدینہ سے چلے بھی جاتے تو مسلمانوں کا کچھ نہ بگڑتا، اس لئے کہ اگر یہ لوگ ہوتے بھی تو صرف دکھلا وے کے لئے شریک ہوتے اور کوئی مفید کام انجام نہ دیتے۔