مَّا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ
کسی آدمی کے سینے میں اللہ تعالیٰ نے دو دل نہیں رکھے اور اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھے ہو انھیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ کی) مائیں نہیں (٢) بنایا، اور نہ تمہارے لے پالک لڑکوں کو (واقعی) تمہارے بیٹے بنایا (٣) یہ تو تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں (٤) اللہ تعالیٰ حق بات فرماتا ہے (٥) اور وہ سیدھی راہ سمجھاتا ہے۔
(3) شوکانی لکھتے ہیں کہ اس آیت کا حصہ ﴿مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ﴾ ان قرآنی احکام کے لئے بطور تمہید آیا ہے، جواس کے بعد بیان کئے گئے ہیں۔ صاحب محاسن التنزیل آیت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس طرح اللہ کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ ایک انسان کے جسم میں دو دل نہ پیدا کئے جائیں اس لئے کہ اگر دونوں ایک ہی بات کو چاہیں گے تو ایک بیکار ہوگا اور اگر دونوں دو مخالف باتوں کا حکم دیں گے تو ایک ہی انسان بیک وقت دو مخالف چیزوں کا چاہنے والا ہوگا، جو ہر شر و فساد کا باعث ہوگا اسی طرح اس کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ ایک ہی عورت ایک مرد کی ماں اور بیوی نہ ہو اور ایک ہی آدمی کسی دوسرے انسان کا حقیقی اور منہ بولا بیٹا نہ ہو۔ آگے لکھتے ہیں کہ یہ مثال زید بن حارثہ کے بارے میں بیان کی گئی تھی، جنہیں لوگ ” زید بن محمد“ کہا کرتے تھے اور عربوں کے قدیم رواج کے مطابق منہ بولا بیٹا وارث بنتا تھا اور اس کی بیوی سے طلاق کے بعد شادی کرنا حرام سمجھا جاتا تھا اسی غلط رواج کو ختم کرنے اور اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا، یہ آیت نازل ہوئی۔