فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
اس لیے جو شخص آپ کے پاس اس علم کے آ جانے کے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ کہہ دیں کہ آؤ ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں کو اور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو بلا لیں، پھر ہم عاجزی کے ساتھ التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں۔ (١)
50۔ اسے آیت مباہلہ کہتے ہیں۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد نجران کے نصاری کا ایک وفد نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس آیا، اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں آپ سے مناظرہ کیا۔ وہ عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے، اور نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دلائل کے ذریعہ ثابت کیا کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے۔ جب باطل پر ان کا اصرار حد سے آگے بڑھ گیا، تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ان کے ساتھ مباہلہ کا حکم دیا۔ امام بخاری نے حذیفہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نجران کے نصرانیوں کے دو سردار رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس مباہلہ کے لیے آئے۔ حالات کا جائزہ لینے کے بعد ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ایسا نہ کرو، اللہ کی قسم، اگر یہ نبی ہے اور ہم نے مباہلہ کیا تو ہم اور ہمارے بعد ہماری نسل کبھی بھی فلاح نہ پائے گی۔ چنانچہ وہ لوگ رسول اللہ کو جزیہ دینے پر راضی ہوگئے۔ امام احمد نے ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ اگر رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ مباہلہ کی نیت کرنے والے ایسا کر گذرتے تو لوٹنے کے بعد نہ انہیں اپنا مال ملتا اور نہ اہل وعیال ابن عباس (رض) کا یہ قول ترمذی اور نسائی میں بھی موجود ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ دونوں سردارانِ نجران کے ساتھ کیے گئے وعدہ کے مطابق رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) صبح کے وقت علی، فاطمہ اور حسن و حسین کے ساتھ باہر نکلے اور ان دونوں کو بلا بھیجا، تو انہوں نے انکار کردیا اور جزیہ دینے پر تیار ہوگئے۔