أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۚ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ
کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے گھڑ لیا ہے (١) (نہیں نہیں) بلکہ یہ تیرے رب تعالیٰ کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ انھیں ڈرائیں جنکے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا (٢) تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں۔
(3) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) سے فرمایا : کفار مکہ کہتے ہیں کہ اسے محمد نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے، یہ سراسر ان کی افترا پردازی ہے یہ تو آپ کے رب کا برحق کلام ہے، جسے اس نے آپ پر بذریعہ وحی نازل کیا ہے، تاکہ آپ اس کے ذریعہ ان مشرکین عرب کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں آیا تھا، تاکہ وہ اللہ پر ایمان لے آئیں، اس کی و حدانیت کا اقرار کریں اور دین حق کو قبول کر کے جہنم کی آگ سے نجات حاصل کریں اور جنت کے حقدار بنیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہاں ” قوم“ سے مراد تمام عرب ہیں، بعض کہتے ہیں کہ اس سے صرف ” اہل قریش“ مراد ہیں، اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی کریم (ﷺ) کے درمیانی وقفہ میں پائے گئے۔