وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ
اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں (١) ہم انھیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے (٢) یقیناً اللہ نیکوکاروں کا ساتھی ہے (٣)
(43) جو لوگ اللہ کی خاطر نفس، شیطان، اور اللہ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرتے ہیں، انہیں خوشخبری دی گئی ہے کہ اللہ انہیں اعمال صالحہ کی توفیق دیتا ہے، تاکہ ان کے ذریعہ اس کی قربت حاصل کریں، نیز ان سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اللہ کی نصرت و تائید انہیں ہمیشہ حاصل رہے گی۔ وباللہ التوفیق تفسیر سورۃ الروم نام : اس کا نام سورت کی دوسری آیت (غُلِبَتِ الرُّومُ) سے ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی لکھتے ہیں کہ پوری سورت بلا اختلاف مکی ہے اور ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ مسلمان مورخین اس کا تاریخی پس منظر یہ بیان کرتے ہیں کہ ایران کے بادشاہ خسرو پرویز نے 613 ء 614 عیسوی میں ملک شام پر حملہ کر کے دمشق اور بیت المقدس پر قبضہ کرلیا، جو اس زمانے میں رومیوں کے مقبوضہ علاقوں میں شامل تھے، یہ زمانہ نبی کریم (ﷺ) کی ہجرت مدینہ سے سات سال قبل کا ہے، جب کفار مکہ مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا رہے تھے اور کچھ مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے، مشرکین مکہ نے ایرانی آتش پرستوں کی فتح یابیوں کی خبریں سن کر خوشیاں منائیں اور مسلمانوں سے کہا کہ تم اور نصاریٰ اہل کتاب ہونے کا دعویٰ کرتے ہو اور ہم اور اہل فارس بت پرست ہیں اور جس طرح اہل فارس رومیوں پر غالب آرہے ہیں، ایک دن ہم بھی تمہیں مکہ کی سر زمین سے نکال باہر کریں گے اس وقت یہ سورت نازل ہوئی جس میں رومیوں کے مغلوب ہونے اور پھر چند ہی سال کے بعد انکے غالب ہونے کی خبر دی گئی ہے اور اسی طرح مسلمانوں کے غلبہ کی بھی بشارت دی گئی ہے، مشرکین نے جب یہ بات سنی تو ظاہری حالات کے مطابق اسے امر محال سمجھا اور ابی بن خلف نے ابوبکر صدیق (رض) کے ساتھ شرط کی، جس میں اللہ کے فیصلے کے مطابق اس کی ہار ہوئی اور رومی فوجوں نے ہجرت نبوی سے ایک سال قبل 621 ء میں اہل فارس کے چھکے چھڑا دیئے اور 624 ء میں ایرانیوں کے سب سے بڑے آتش کدہ کو نیست و نابود کردیا اور اسی سال مسلمانوں کو میدان بدر میں کفار قریش کے مقابلے میں عظیم ترین فتح و کامیابی حاصل ہوئی اور قرآن کریم کی معجزانہ خبر حرف بحرف سچ ثابت ہوئی۔