قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِي ۚ أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَهْلَكَ مِن قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعًا ۚ وَلَا يُسْأَلُ عَن ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ
قارون نے کہا یہ سب کچھ مجھے میری اپنی سمجھ کی بنا پر ہی دیا گیا ہے (١) کیا اسے اب تک یہ نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بہت سے بستی والوں کو غارت کردیا جو اس سے بہت زیادہ قوت والے اور بہت بڑی جمع پونجی والے تھے (٢) اور گنہگاروں کی باز پرس ایسے وقت نہیں کی جاتی (٣)
(41) اس نصیحت سے اس سرکش ونافرمان قارون کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اور کہنے لگا کہ اللہ نے مجھے یہ مال اس علم کی بدولت دیا ہے جو میرے پاس ہے اور مجھے اس کا حقدار سمجھ کردیا ہے یا مفہوم یہ ہے کہ فن تجارت میں مہارت کے سبب میں نے یہ مال حاصل کیا ہے مجھ پرکسی کا احسان نہیں ہے کہ میں لوگوں پر اسے خرچ کرتا پھروں۔ اللہ نے اس کی کافرانہ بات کا یہ جواب دیا کہ اگر طالت اور مال اللہ کے نزدیک فضیلت کاسبب ہوتا تو گزشتہ زمانوں میں بہت سی قوموں کو اللہ ہلاک نہ کردیتا جو قارون سے زیادہ طاقت ور اور اس سے زیادہ مالدار تھیں کثرت معاصی اور کثرت جرائم کے سبب سے جب کسی قوم کو ہلاک کیے جانے کا فیصلہ ہوجاتا ہے تو انہیں مہلت نہیں دی جاتی ہے اور ان سے پوچھا نہیں جاتا کہ انہوں نے وہ گناہ کیوں کیے تھے اور ان کے پاس کیا عذر ہے۔