إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْ ۖ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ
قارون تھا تو قوم موسیٰ سے، لیکن ان پر ظلم کرنے لگا (١) ہم نے اسے (اس قدر) خزانے دے رکھے تھے کہ کئی کئی طاقتور لوگ بمشکل اس کی کنجیاں اٹھا سکتے تھے (٢) ایک بار اس کی قوم نے کہا کہ اتر امت (٣) اللہ تعالیٰ اترانے والوں سے محبت نہیں رکھتا (٤)۔
(40) مفسرین لکھتے ہیں کہ قارون موسی (علیہ السلام) کا چچازاد بھائی تھا دوسری رائے یہ ہے کہ وہ ان کا چچا تھا اور تیسری رائے ہے کہ ان کا خالہ زاد بھائی تھا بہرحال وہ تھا بنی اسرائیل کا ایک فرد، لیکن کفر وسرکشی کی وجہ سے فرعون سے جاملا تھا اور اللہ نے کفر کے بالخصوص جن تین سرغنوں کی طرف موسیٰ کو نبی بناکربھیجا تھا ان میں سے ایک تھا دوسراہامان تھا جوفرعون کا قبطی وزیر تھا اور تیسرا راس الکفر فرعون تھا اس قارون کو اللہ نے بہت بڑا مالدار بنایا تھا اور یہی اس کے کفر وطغیان کا سبب تھا اور کبر کی انتہا کو پہنچ چکا تھا اور کہتا تھا کہ میں نے یہ دولت اپنے زور بازو سے حاصل کی ہے کہتے ہیں کہ اس نے اظہار کبر کے لیے غیروں کے مقابلے میں اپنا کپڑا ایک بالشت لمبا بنالیا تھا۔ کفروسرکشی کے اس سرغنہ کا ذکر یہاں اہل قریش کی تنبیہ کے لیے کیا گیا ہے جنہوں نے مکہ میں اپنی سرداری، مال ودولت اور دنیاوی مال ومتاع کے ضائع ہونے کے خوف سے نبی کریم (ﷺ)پر ایمان لانے سے انکار کردیا تھا اور کہتے تھے کہ اگر ہم نے محمد کی پیروی کی تو دنیائے عرب ہمیں اچک لے جائے گی اور ہمارا وجود ختم ہوجائے گا اور ہماری تجارت خطرے میں پڑجائے گی گویا کہ کفر واستکبار میں ان کی حالت قارون جیسی ہی تھی اس لیے اس کا واقعہ اور انجام بیان کرکے انہیں تنبیہ کی گئی کہ وہ اپنی دولت کے نشہ میں محمد کی دعوت نہ ٹھکرائیں جس طرح قارون نے موسیٰ کی دعوت کوٹھکرادیا تھا ورنہ ان کا انجام بھی اسی جیسا ہوگا۔ اس قارون کو اس کی قوم یعنی بنی اسرائیل کے مسلمانوں نے نصیحت کی کہ دنیا کی چمک دمک پر اتنا زیادہ اتراؤ مت کہ اللہ کی یاد سے غافل ہوجاؤ اللہ ایسی خوشی کو پسند نہیں کرتا جس کے سبب انسان آخرت سے غافل ہوجائے اور دنیا کوہی سب کچھ سمجھ بیٹھے کیونکہ ہر برائی اور ہرفساد کی جڑیہی ہے