سورة آل عمران - آیت 28

لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں (١) اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی کسی حمایت میں نہیں یہ ان کے شر سے کس طرح بچاؤ مقصود ہو (٢) اللہ تعالیٰ خود تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹ جانا ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

24۔ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو اس بات سے منع کیا ہے کہ وہ مؤمنوں کے بجائے کافروں کو اپنا دوست بنائیں، اس لیے کہ مؤمنوں کا ولی اللہ ہے، اور مؤمنین آپس میں ایک دوسرے کے ولی اور دوست ہیں، قرآن کریم میں اس مضمون کی کئی آیتیں آئی ہیں، اللہ کے لیے محبت اور اللہ کے لیے بغض و عداوت ایمان کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے، اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ جو کوئی کافروں کو اپنا دوست بنائے گا، اللہ اس سے بری ہے اور اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، ہاں اگر کافروں سے کوئی خطرہ ہو، تو مسلمان کے لیے یہ جائز ہے کہ وقتی طور پر زبان سے دوستی کا اظہار کرے، امام بخاری نے ابوالدرداء کا قول نقل کیا ہے کہ ہم لوگ بعض قوموں کے سامنے مصنوعی مسکراہٹ کا اظہار کرتے تھے، حالانکہ ہمارے دل ان پر لعنت بھیجتے تھے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اللہ تمہیں اپنی ذات مقدس سے ڈرا رہا ہے، دیکھو، اس کے احکام کی مخالفت اور اس کے دشمنوں سے دوستی کر کے اسے ناراض نہ کرو، اس میں انتہا درجے کی دھمکی ہے۔