سورة آل عمران - آیت 13

قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ ۚ وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَن يَشَاءُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُولِي الْأَبْصَارِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یقیناً تمہارے لئے عبرت کی نشانی تھی ان دو جماعتوں میں جو گتھ گئی تھیں، ایک جماعت تو اللہ کی راہ میں لڑ رہی تھی اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا وہ انہیں اپنی آنکھوں سے اپنے سے دو گنا دیکھتے تھے (١) اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی مدد سے قوی کرتا ہے یقیناً اس میں آنکھوں والوں کے لئے بڑی عبرت ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

10۔ یہاں بھی مخاطب یہود مدینہ ہیں، کہ غزوہ بدر میں جو کچھ ہوا اس سے تمہیں عبرت حاصل کرنی چاہئے تھی، اور سمجھ لینا چاہئے تھا کہ اللہ اپنے دین کو غالب کر کے رہے گا، اور اپنے رسول کی مدد ضرور کرے گا۔ سے مراد اللہ کے رسول اور اور صحابہ کرام ہیں، جن کی تعداد تین سو تیرہ تھی اور فئۃ اخری سے مراد مشرکین قریش ہیں، جن کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ کفار کو مسلمان اپنے سے دوگنا نظر آنے لگے، یہ اللہ کی طرف سے مسلمانوں کی مدد تھی تاکہ کفار پر رعب طاری ہوجائے، اس کے علاوہ اللہ نے مسلمانوں کی مدد فرشتوں کے ذریعہ بھی کی، اور یہ جو سورۃ انفال میں آیا ہے اور تمہیں ان کی نظروں میں کم دکھایا، تو یہ ابتدائے امر میں ہوا تاکہ کفار ڈر کے مارے بھاگ نہ جائیں، اور جب دونوں فوجیں ٹکرا گئیں تو اللہ نے مسلمانوں کو کافروں کی نظر میں دوگنا کر دکھایا، تاکہ کافروں پر رعب طاری ہوجائے، اور اللہ نے جس امر کا فیصلہ کردیا تھا وہ ہو کر رہا، یعنی کفار قریش کے کشتوں کے پشتے لگ جائیں۔