قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ ۖ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا
کہہ دیجئے! اگر تمہاری دعا التجا (پکارنا) نہ ہوتی تو میرا رب تمہاری مطلق پرواہ نہ کرتا (١) تم تو جھٹلا چکے اب عنقریب اس کی سزا تمہیں چمٹ جانے والی ہوگی (٢)۔
33۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ جن و انس کی بندگی کا محتاج نہیں ہے، اس لیے کہ وہ اپنی تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے، اس نے بندوں کی بھلائی کے لیے ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے، انہیں طاعت و بندگی کا حکم دیا ہے، اور کفر و شرک کی راہ چھوڑ کر توحید کی راہ پر گامزن ہونے کی دعوت دی ہے، اس لیے جو لوگ اس کی دعوت کو ٹھکرا دیں گے، اس کے قرآن اور اس کے رسول کی تکذیب کریں گے، اور اس کے سوا غیروں کی عبادت کریں گے، انہیں لازمی طور پر عذاب دیا جائے گا۔ جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد میدانِ بدر میں کفار مکہ کا قتل کیا جانا اور باقی ماندہ کا گرفتار کیا جانا ہے۔ بعض لوگوں نے اس سے قیامت کے دن کا عذاب مراد لیا ہے، یعنی ان کے لیے قیامت کے دن دائمی عذاب لکھ دیا گیا ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ دنیاوی اور اخروی دونوں عذاب مراد لینے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے