وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً ۚ كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا
اور کافروں نے کہا اس پر قرآن سارا کا سارا ایک ساتھ ہی کیوں نہ اتارا گیا (١) اسی طرح ہم نے (تھوڑا تھوڑا) کرکے اتارا تاکہ اس سے ہم آپ کا دل قوی رکھیں، ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے (٢)۔
14۔ مشرکین مکہ کبر و نخوت میں آ کر بغیر کسی معقول سبب کے کہتے تھے کہ جس طرح تورات اور انجیل و زبور ایک بار نازل ہوئے تھے، قرآن بھی ایک ہی بار کیوں نہ اتار دیا گیا، حالانکہ اس طرح کے سوالات کرنے کا انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا تھا، یہ محض ان کے کفر و عناد کا نتیجہ تھا، نبی کریم (ﷺ) کو ان کے اس قسم کے اعتراضات سے تکلیف پہنچتی تھی، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں اطمینان دلانے کے لیے فرمایا کہ قرآن کریم آیتوں اور سورتوں کی شکل میں اس لیے نازل ہو رہا ہے تاکہ آپ کے دل کو اس سے تقویت پہنچتی رہے اور آپ کی ہمت افزائی ہوتی رہے۔ جیسے بارش کا پانی جب زمین پر پہنچتا ہے، تو اس میں نئی زندگی آجاتی ہے، اور انواع و اقسام کے پھول اور پھل نظر آنے لگتے ہیں اور قرآن کریم اس لیے بھی ٹکڑوں میں نازل ہو رہا ہے، تاکہ اس کا یاد کرنا، اسے سمجھنا اور اس پر عمل کرنا آسان ہو۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ بنی اسرائیل آیت 106 میں یوں بیان فرمایا ہے﴿ وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلًا﴾۔ قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے اس لیے اتارا ہے تاکہ آپ اسے مہلت کے ساتھ لوگوں کو سنائیں اور ہم نے اسے بتدریج نازل فرمایا ہے۔