سورة النور - آیت 39

وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ ۗ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں جیسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا، ہاں اللہ کو اپنے پاس پاتا ہے جو اس کا حساب پورا پورا چکا دیتا ہے، اللہ بہت جلد حساب کردینے والا ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

اور دوسری جماعت ان لوگوں کی ہے جن کا ذکر آیات (39، 40) میں آیا ہے، کہ کافروں کے اعمال کی مثال اس سراب کی ہے جسے پیاسا آدمی پانی سمجھتا ہے، لیکن جب وہاں پہنچتا ہے تو اسے یاس و حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا، یعنی قیامت کے دن بغیر ایمان ان کے اعمال کی کوئی حقیقت نہیں ہوگی، اور اللہ ان کے کفر اور برے اعمال کا پورا پورا حساب انہیں چکا دے گا، یعنی جہنم میں دھکیل دے گا۔ کافروں کے کفر، عقیدہ باطل اور ان کے برے اعمال کی ایک دوسری مثال وہ گھٹا ٹوپ تاریکی ہے جو کالی رات میں گہرے سمندر میں ہوتی ہے جس میں یکے بعد دیگرے موجیں اٹھتی رہتی ہیں اور اوپر آسمان پر کالا بادل ہوتا ہے، گویا تاریکی ہی تاریکی ہوتی ہے، ایسی شدید اور بھیانک تاریکی ہوتی ہے کہ اس رات کا مسافر سمندر میں خود اپنا ہاتھ نہیں دیکھ پاتا ہے، اس دنیا میں کافر کا بھی یہی حال ہوتا ہے کہ اس کی زندگی میں کئی ظلمتیں جمع ہوجاتی ہیں، کفر کی ظلمت، برے اعمال کی ظلمت، باطل کی ظلمت، رب العالمین کو نہ پہچاننے کی ظلمت اور اپنے انجام سے بے خبر ہونے کی ظلمت، وہ انہی تاریکیوں میں بھٹکتا رہتا ہے یہاں تک کہ موت اسے آدبوچتی ہے۔