سورة البقرة - آیت 273

لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

صدقات کے مستحق صرف وہ غربا ہیں جو اللہ کی راہ میں روک دیئے گئے، جو ملک میں چل پھر نہیں سکتے (١) نادان لوگ ان کی بے سوالی کی وجہ سے انہیں مالدار خیال کرتے ہیں، آپ ان کے چہرے دیکھ کر قیافہ سے انہیں پہچان لیں گے وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے (٢) تم جو کچھ مال خرچ کرو تو اللہ تعالیٰ اس کا جاننے والا ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

370: اللہ تعالیٰ نے مال والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنا مال ان فقیروں اور محتاجوں پر خرچ کریں جنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے، یا دن رات اس کی بندگی اور حصول علم کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ یہاں مراد اصحاب صفہ ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے ان سے مراد وہ تمام مہاجرین لیے ہیں جو مدینہ منورہ میں آ کر اقامت پذیر ہوگئے تھے اور تجارت و حصول مال کے اسباب و ذرائع ان سے منقطع ہوچکے تھے۔ فائدہ : اس آیت کریمہ میں مؤمنین مہاجرین کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ وہ اپنی شدت ضرورت و حاجت کے باوجود لوگوں سے الحاح کے ساتھ نہیں مانگتے۔ اسلام نے شدت ضرورت کے وقت سوال کرنے کو جائز قرار دیا ہے، اور بغیر ضرورت سوال کرنے کی بڑی مذمت کی ہے۔ بخاری اور مسلم نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا ایک آدمی ہمیشہ مانگتا رہے گا، یہاں تک کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہوگا، اس طرح کی اور بھی حدیثیں ہیں جن میں لوگوں سے سوال کرنے کی بڑی مذمت آئی ہے، امام مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے مانگتا ہے وہ گویا جہنم کی آگ مانگتا ہے۔