وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ہم نے آپ سے پہلے جس رسول اور نبی کو بھیجا اس کے ساتھ یہ ہوا کہ جب وہ اپنے دل میں کوئی آرزو کرنے لگا شیطان نے اس کی آرزو میں کچھ ملا دیا، پس شیطان کی ملاوٹ کو اللہ تعالیٰ دور کردیتا ہے پھر اپنی باتیں پکی کردیتا ہے (١) اللہ تعالیٰ دانا اور باحکمت ہے۔
(29) کفار و مشرکین کی جانب سے نبی کریم (ﷺ)کو جب بھی کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ کو تسلی دی جاتی تاکہ آپ کی ہمت بندھی رہے اور اپنا مشن جاری رکھیں۔ ابھی آیت (41) میں آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ کفار اگر آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو دل برداشتہ نہ ہوں تمام انبیاء کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہا ہے، اس آیت کریمہ میں بھی آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ قرآن پڑھ رہے ہوں، اور شیطان اپنی طرف سے مشرکوں کے کانوں تک کچھ کلمات پہنچا دے تو آپ پریشان نہ ہوں، اللہ تعالیٰ ان کلمات کو زائل کردے گا اور قرآن کی آیتوں کو محکم بنا دے گا۔ اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں جو واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) ایک دن خانہ کعبہ کے پاس نماز میں سورۃ النجم کی تلاوت کر رہے تھے تو مشرکین سن رہے تھے آپ نے جب İأَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَىĬ کی تلاوت کی تو شیطان نے ان کی زبان پر ’’تلک الغرانیق العلا، وان شفاعتھن لترتجی‘‘ یہ بلند مقام دیویاں، بیشک ان کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے، جاری کردیا، جسے سن کر مشرکین بہت خوش ہوئے اس میں ان کے بتوں کی تعریف تھی یہ بالکل بے اصل اور بے بنیاد واقعہ ہے۔ بیہقی کہتے ہیں کہ یہ قصہ من گھڑت ہے۔ ابن خزیمہ نے لکھا ہے کہ یہ قصہ زنادقہ نے گھڑا تھا، قاضی عیاض اپنی کتاب الشفا میں لکھتے ہیں : امت کا اس پر اجماع ہے کہ نبی کریم (ﷺ)نے اللہ کی جانب سے جو کچھ بھی پہنچایا اس میں قصدا یا غلطی سے یا بھول کر کسی طرح بھی ایک حرف کا اپنی طرف سے اضافہ نہیں کیا۔ رازی کہتے ہیں کہ یہ قصہ باطل ہے، قرآن نے آپ کے بارے میں بہت سی آیتوں میں جو کچھ کہا ہے کہ نہ وہ اپنی طرف سے کچھ کہتے ہیں اور بھولتے ہیں اس کے خلاف ہے۔ اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ نبی کریم (ﷺ)نے کسی بھی حیثیت سے بتوں کی تعظیم کی اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔ محدث البانی نے بھی اس قصہ کو باطل قرار دیا ہے اور اس کی تردید میں ان کا ایک رسالہ بھی ہے، جو اہل علم کے درمیان مشہور ہے۔ البتہ حافظ ابن حجر تین صحیح مرسل روایتوں کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اتنی بات ثابت ہے کہ آپ نے جب سورۃ النجم کی تلاوت کی تو شیطان نے اپنی طرف سے مشرکوں کے کان میں ایسے کلمات ڈال دیئے جن میں بتوں کی تعریف تھی۔ رسول اللہ (ﷺ) کی زبان پر وہ کلمات جاری نہیں ہوئے تھے۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے ہمارے نبی ! ہم نے آپ سے پہلے بھی جب کوئی رسول یا نبی بھیجا اور اس نے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کی تو شیطان نے اس کی تلاوت کے درمیان کچھ اپنی طرف سے مشرکوں کے کان تک پہنچا دیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہی شیطان کے القا کردہ کلمات کو زائل و باطل بنا دیا اور اپنی آیتوں کو محکم اور ثابت کردیا۔