فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ ۖ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ
تو ہم نے اس کی سن لی اور جو دکھ انھیں تھا اسے دور کردیا اور اس کو اہل و عیال عطا فرمائے بلکہ ان کے ساتھ ویسے ہی اور، اپنی خاص مہربانی (١) سے تاکہ سچے بندوں کے لئے سبب نصیحت ہو۔
اللہ نے ان کی دعا قبول کرلی، ان کی بیماری جاتی رہی اور اللہ نے اپنے فضل و کرم سے انہیں پہلے سے بھی زیادہ مال و دولت اور اولاد و جاہ سے نوازا۔ اس واقعہ سے نصیحت ملتی ہے کہ صبر کا انجام ہمیشہ اچھا ہوتا ہے اور اسمائے حسنی اور صفات علیا کے واسطے سے اللہ کے حضور دعا اور گریہ و زاری سے مصیبت دور ہوتی ہے اور دنیا کی مصیبت و تکلیف اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ بندہ اپنے رب کی نگاہ میں ذلیل و بدبخت ہے اور ایمان و اخلاص کے ساتھ صبر کرنے سے اللہ تعالیٰ پہلے سے کئی گنا زیادہ دیتا ہے۔