وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور انہیں ان کے نبی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا دیا ہے تو کہنے لگے بھلا اس کی ہم پر حکومت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سے تو بہت زیادہ حقدار بادشاہت کے ہم ہیں، اس کو تو مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی۔ نبی نے فرمایا سنو، اللہ تعالیٰ نے اسی کو تم پر برگزیدہ کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے (١) بات یہ ہے اللہ جسے چاہے اپنا ملک دے، اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔
341: صموئیل نے جب طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کردیا، تو انہوں نے حیرت کا اظہار کیا، اور کہا کہ خاندان اور ثروت کے اعتبار سے اس زیادہ حقدار لوگ موجود ہیں، پھر اسے آپ نے کیوں ہمارا بادشاہ بنایا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اسے اللہ نے بادشاہ بنایا ہے، اس لیے کہ وہ علم اور قوت جسم میں دوسروں پر فوقیت رکھتا ہے، اور اس لیے کہ بادشاہت کے لیے کثرت مال شرط نہیں اور نہ یہ ہے کہ وہ پہلے سے شاہی خاندان کا ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی حکومت دے دیتا ہے۔