قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ ۖ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي ۖ إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا
کہا اچھا تم پر سلام ہو (١) میں تو اپنے پروردگار سے تمہاری بخشش کی دعا کرتا رہوں گا (٢) وہ مجھ پر حد درجہ مہربان ہے۔
(28) ابراہیم اپنے کافر باپ کا انتہائی شدید جواب سن کر بھی حد ادب سے نہیں نکلے اور اس کے لیے سلامتی کی دعا کی، گویا یہ کہنا چاہا کہ اگرچہ آپ مجھے سنگسار کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں، لیکن مجھ سے آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی، میں اپنے رب سے آپ کی مغفرت کی دعا کروں گا، وہ مجھ پر بہت ہی کرم فرما ہے، مجھے ناامید نہیں کرے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے برائی کا جواب بھلائی سے دیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کا وصف بیان کرتے ہوئے سورۃ الفرقان آیت (63) میں فرمایا ہے : ﴿ وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا﴾جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہو (یعنی میں تم سے جھگڑنا نہیں چاہتا ہوں۔ مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابراہیم کا اپنے باپ سے یہ وعدہ کہ وہ اللہ سے اس کے لیے مغفرت طلب کریں گے، اس توقع کی بنیاد پر تھا کہ وہ اسلام لے آئے گا، اور کفر پر نہیں مرے گا۔ چنانچہ ایک طویل مدت تک وہ اس کے لیے طلب مغفرت کرتے رہے، شام کی طرف ہجرت کرجانے، مسجد حرام بنانے، اور اسحاق و اسماعیل کی ولادت کے بعد بھی اس کے لیے دعا کرتے رہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ ابراہیم آیت (41) میں فرمایا ہے : ﴿ رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ﴾اے ہمارے رب ! قیامت کے دن مجھے معاف کردینا اور میرے ماں باپ کو اور تمام مومنوں کو بھی۔ لیکن جب انہیں یقین ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے اپنی برات کا اعلان کردیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ آیت (114) میں فرمایا ہے : ﴿ وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ﴾ اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت مانگنا صرف اس وعدے کے سبب تھا جو انہوں نے اس سے کر رکھا تھا، پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے اظہار برات کردیا، واقعی ابراہیم بڑے نرم دل اور بردبار تھے۔