يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا
میرے مہربان باپ! آپ دیکھیے میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس آیا ہی نہیں، (١) تو آپ میری ہی مانیں میں بالکل سیدھی راہ کی طرف آپ کی رہبری کروں گا (٢)۔
(24) انہوں نے دوبارہ نہایت نرمی اور ادب کے ساتھ اپنے باپ کو حق کی طرف بلایا، اور کہا، ابا جان ! میرے پاس کچھ ایسا علم ہے جو آپ کے پاس نہیں ہے، اس لیے ناراض نہ ہویے اور میری بات مان لیجیے تاکہ میں آپ کو اس راہ پر لے چلوں جو اعتدال کی راہ ہے نہ اس میں یہ افراط ہے کہ جو عبادت کا مستحق نہیں ہے اس کی عبادت کی جائے اور نہ تفریط ہے کہ جو عبادت کا مستحق ہے اس کی عبادت چھوڑ دی جائے۔ اور یہی حال اخلاق و اعمال کے باب میں بھی ہے، کہ یہ راہ ہر اچھے اخلاق و اعمال کی طرف لے جاتی ہے اور برے اخلاق و اعمال سے دور رکھتی ہے، اور یہ بھی سکھاتی ہے کہ اگرچہ عرف عام میں بیٹا باپ کی پیروی کرتا ہے، لیکن حق یہ ہے کہ حق کی اتباع کی جائے اور جو محتاج ہدایت ہے وہ انسان کامل کی پیروی کرے۔ و باللہ التوفیق