وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو (١) اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ ہاں جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے (٢) اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
313: انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ یہود اپنی حائضہ عورتوں کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے تھے تھے، اور نہ ایک گھر میں ان کے ساتھ سوتے تھے، صحابہ کرام (رض) نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے اس کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ اپنی عورتوں کے ساتھ کیسا معاملہ کریں تو یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ انہیں بتا دیجئے کہ ماہواری کا خون گندا اور نقصان دہ ہوتا ہے، اس لیے مدت حیض میں ان کے ساتھ مجامعت نہ کرو، اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب بھی نہ جاؤ، اور جب تک پاکی حاصل نہ کرلیں ان کے ساتھ جماع نہ کرو، اللہ تعالیٰ گناہوں سے توبہ کرنے والوں، اور نجاستوں اور گندگیوں سے پاکی حاصل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ فوائد : 1۔ آیت میں ممانعت جماع سے ہے، ایک ساتھ اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، لیٹنے اور جماع کے علاوہ دیگر امور استمتاع کی ممانعت نہیں ہے۔ صحیحین میں ام المؤمنین میمونہ (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے ساتھ لیٹتے تھے اور میں حائضہ ہوتی تھی اور میرے اور ان کے درمیان صرف ایک کپڑا ہوتا تھا۔ 2۔ حیض آنے کے بعد بہتوں کے نزدیک جماع کے جواز کی دو شرطیں ہیں : پہلی شرط یہ ہے کہ حیض کا خون آنا بند ہوجائے، اور دوسری یہ ہے کہ عورت غسل کرلے۔ اگر غسل کے لیے پانی میسر نہ ہو تو تیمم کرلینا کافی ہوگا، امام شوکانی کے نزدیک یہی راجح ہے، لیکن امام ابن حزم اور دیگر بہت سے علماء کا خیال ہے کہ غسل کرنا شرط نہیں۔ اگر عورت انقطاع دم کے بعد اپنی شرمگاہ اچھی طرح صاف کرلیتی ہے تاکہ وہاں خون کا کوئی اثر باقی نہ رہے، تو پھر جماع جائز ہوگا، محدث شام علامہ ناصر الدین البانی نے اپنی کتاب آداب الزفاف میں اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ 3۔ خون رک جانے کے بعد حائضہ کے لیے غسل کرنا واجب ہے۔