وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُولَٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ ۖ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
اور شرک کرنے والی عورتوں سے تاوقتیکہ وہ ایمان نہ لائیں تم نکاح نہ کرو (١) ایماندار لونڈی بھی شرک کرنے والی آزاد عورت سے بہتر ہے، گو تمہیں مشرکہ ہی اچھی لگتی ہو اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں، ایماندار غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے، گو مشرک تمہیں اچھا لگے، یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت کی طرف اور اپنی بخشش کی طرف اپنے حکم سے بلاتا ہے وہ اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرما رہا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
310: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مشرکہ اور بت پرست عورتوں سے نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں، مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت عام ہے اور اہل کتاب کی عورتوں کو بھی شامل ہے اس کے بعد سورۃ مائدہ کی آیت نے اس کی تخصیص کردی اور اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کرنا جائز ہوگیا۔ آیت یہ ہے ، اور مؤمن پاکدامن عورتوں سے اور اہل کتاب کی پاکدامن عورتوں سے شادی کرنا تمہارے لیے جائز کردیا گیا ہے۔( مائدہ : 5۔) بعض دیگر محققین نے لکھا ہے کہ مشرک اور مشرکہ کا لفظ کتابی اور کتابیہ کو شامل نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن نے پوری صراحت کے ساتھ دونوں میں تفریق کی ہے اور ایک کے بعد دوسرے کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: İ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ وَالْمُشْرِكِينَĬ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرک کے مذہب کی بنیاد ہی شرک پر ہے، جبکہ کتابی کے دین کی بنیاد توحید پر تھی، مرورِ زمانہ کے ساتھ انہوں نے اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک بنا دیا۔ معلوم ہوا کہ مشرکہ سے نکاح کی حرمت میں اہل کتاب کی عورتیں شامل نہیں ہیں۔ 311: مشرکہ کے ساتھ حرمت نکاح کی علت بیان کی گئی ہے، اور مؤمنہ سے شادی کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے، کہ غلامی ذلت کے باوجود، ایمان کی نعمت کفر و شرک پر ہر طرح بھاری ہے، چاہے مشرکہ کا حسن و جمال اور اس کا حسب و نسب تمہیں کتنا ہی کیوں نہ بھا رہا ہو۔ 312: مؤمنہ عورت (چاہے آزاد ہو یا لونڈی) کی شادی مشرک کے ساتھ کسی حال میں جائز نہیں ہے، امت کا اس پر اجماع ہے، یہاں بھی اس حرمت نکاح کی علت بیان کی گئی ہے کہ مؤمن طوق غلامی کے باوجود مشرک سے ہر طرح سے بہتر ہے، چاہے مشرک کیسا ہی مال و دولت اور جاہ و حشم والا کیوں نہ ہو، اس لیے مؤمنہ عورت کی شادی صرف مؤمن مرد ہی کے ساتھ حلال ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری وجہ حرمت بیان کی کہ مشرک عورتیں اپنے شوہروں کو اور مشرک مرد اپنی بیویوں کو جہنم کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ قرآن وسنت کی تعلیمات کے ذریعہ رضائے الٰہی اور جنت کی طرف بلاتا ہے اور اپنی آیتیں لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں، حرام شادیوں سے بچیں، اور رشتہ ازدواج صرف مؤمن مردوں اور عورتوں کے ساتھ استوار کریں۔ فوائد : 1۔ مشرک اور بدعتی کے ساتھ میل جول رکھنا جائز نہیں ہے اس لیے کہ وہ اپنے ہر قول و فعل کے ذریعہ جہنم کی طرف بلاتا ہے۔ 2۔ عورت کا نکاح بغیر ولی کے معتبر نہیں ہوگا، اللہ نے فرمایا: یعنی اپنی عورتوں کا نکاح مشرکین کے ساتھ نہ کرو، معلوم ہوا کہ عورت کی شادی اس کا ولی کرے گا، وہ خود اپنی شادی نہیں کرے گی۔ 3۔ حضرت عمر (رض) نے کتابیہ سے شادی کو مکروہ سمجھا، تاکہ ایسا نہ ہو کہ مسلمان مرد اپنی عورتوں کو چھوڑ کر کتابیات سے شادی کرنے لگیں۔ 4۔ اس آیت میں ترغیب دلائی گئی ہے کہ مؤمن مردوں اور عورتوں کی شادی انہی جیسے مؤمن مردوں اور عورتوں سے ہونی چاہئے اور کافر مردوں اور عورتوں سے رشہ ازداوج نہیں جوڑنا چاہئے۔ صحیح احادیث میں بھی اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔ صحیحین میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے، نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ عورت سے شادی چار اسباب کی وجہ سے کی جاتی ہے، مال و دولت، حسب و نسب، حسن و جمال اور دینداری، تم دیندار عورت حاصل کرنے کی کوشش کرو، اور مسلم نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے، نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا ہے کہ دنیا ایک عارضی متاع (فائدہ کی چیز) ہے، اور دنیا کی سب سے بہترین متاع نیک بیوی ہے۔