فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۗ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
امور دینی اور دنیاوی کو۔ اور تجھ سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں (١) آپ کہہ دیجئے کہ ان کی خیر خواہی بہتر ہے، تم اگر ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں، بدنیت اور نیک نیت ہر ایک کو اللہ خوب جانتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا (٢) یقیناً اللہ تعالیٰ غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔
309: ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ جب قرآن کریم کی یہ آیت اتری، ، اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو مستحسن ہو،( الانعام : 152۔) اور یہ آیت۔ اور جو لوگ یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں، اور وہ دوزخ میں جائیں گے۔ (النساء :10۔) تو تمام صحابہ کرام نے جن کے گھروں میں ایتام تھے، ان کا کھانا پینا الگ کردیا، اور جب ان کے کھانے کا کچھ حصہ بچ جاتا تو اسے اٹھا رکھتے، یا تو یتیم اسے کھاتا یا پھر خراب ہوجانے کے بعد اسے پھینک دیا جاتا، یہ چیز ان پر بڑی شاق گذری، اور اس کا تذکرہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کیا، تو سورۃ بقرہ کی آیت اتری کہ مقصود یتیموں کے مال کی حفاظت ہے، اور اگر انہیں کھانے وغیرہ میں شریک کرلیا جائے اس طور پر کہ نیت ان کے ساتھ بھلائی کرنی ہو، ان کا مال کھانا نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ چاہے ان کے کھانے کا کچھ حصہ تم یا تمہارے بچے کھا جائیں، کیونکہ وہ دینی بھائی ہیں، اور دینی اخوت خاندانی اخوت سے زیادہ قوی اور مبنی بر اخلاص ہوتی ہے، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ کس کی نیت یتیم کی خیر خواہی ہے، اور کس کی اس کا مال حیلہ بہانا سے کھا جانا، اور اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت و پریشانی میں ڈال دیتا، اور ان کا کھانا الگ رکھنے کا حکم دیتا، اور کوئی چیز اسے اس سے نہ روک سکتی تھی، اس لیے کہ اللہ تو ہر چیز پر غالب آنے والا اور صاحب حکمت ہے (ابو داو، نسائی، حاکم)۔ فائدہ : سہل بن سعد (رض) کی روایت ہے، نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح رہیں گے، اور اپنی شہادت کی انگلی اور بچلی انگلی سے اشارہ کیا اور ان دونوں کے درمیان فاصلہ بنایا (بخاری و مسلم)