سورة البقرة - آیت 215

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجئے جو مال تم خرچ کرو وہ ماں باپ کے لئے ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے (١) اور تم جو کچھ بھلائی کرو گے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

303: لوگوں نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پوچھا کہ وہ اپنے مال میں سے اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں تو اللہ تعالیٰ نے ان کا جواب دیا، اور ان کی رہنمائی فرمائی کہ وہ کوئی بھی مال حلال اللہ کی راہ میں خرچ کرسکتے ہیں، چاہے تھوڑا ہو یا زیادہ، اس کے بعد آپ نے انہیں بتایا کہ اس سوال سے زیادہ اہم یہ جاننا ہے کہ مال کن پر خرچ کیا جائے، چنانچہ انہیں تعلیم دی کہ انسان کی نیکی اور حسن سلوک کے سب سے زیادہ حقدار اس کے والدین ہیں، ان پر خرچ کرنا اور ان کے ساتھ حسن سلوک سب سے بڑی نیکی ہے اور ان کے ضرورت مند ہونے کے باوجود ان پر نہ خرچ کرنا ان کی سب سے بڑی نافرمانی ہے۔ مسند احمد میں ہے، نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ اپنی ماں اور باپ پر خرچ کرو، اپنی بہن اور بھائی پر خرچ کرو، اس کے بعد حسب مراتب قریبی رشتہ داروں پر، والدین کے بعد حسب مراتب دوسرے رشتہ داروں، ایتام مساکین و فقراء اور ان مسافروں پر خرچ کرنا چاہئے جن کا زاد راہ ختم ہوگیا ہو، اور اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے پیسوں کے محتاج ہوں، اس تفصیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے علی وجہ الاجمال یہ فرمایا کہ اے مسلمانوں تم جو بھی کار خیر کروگے، چاہے ان لوگوں کے ساتھ جن کا ذکر اوپر آچکا، اوروں کے ساتھ، تو اللہ اسے جانتا ہے اور اس کا بہترین بدلہ تمہیں عطا فرمائے گا، جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے : ، کہ مرد ہو یا عورت، میں کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔( آل عمران : 195۔) نیز فرمایا ہے، ، کہ جو کوئی ایک ذرہ کے برابر نیکی کرے گا، اسے روز قیامت اپنے میزان عمل میں دیکھ لے گا، (الزلزلہ : 7۔)