وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا
جبکہ موسیٰ نے اپنے نوجوان (١) سے کہا کہ میں تو چلتا ہی رہوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے (٢) سنگم پر پہنچوں، خواہ مجھے سالہا سال چلنا پڑے (٣)۔
(37) مفسرین نے یہاں اس واقعہ کے بیان کرنے کا سبب بیان کیا ہے کہ جب یہود نے اہل قریش کو سکھایا کہ وہ محمد سے اصحاب کہف کے بارے میں پوچھیں اگر وہ ان کے بارے میں خبر دیتا ہے تو سچا نبی ہوگا ورنہ نہیں، تو اللہ نے واقعہ اصحاب کہف کے بعد، واقعہ موسیٰ و خضر کو بیان کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ نبی کریم کو دنیا میں اب تک وقوع پذیر تمام واقعات کی خبر ہو۔ تم نے اصحاب کہف کے بارے میں پوچھا تھا تو لو میں تمہیں اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب واقعہ سناتا ہوں جس کی خبر میں نے اپنے نبی کو بذریعہ وحی دی ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم ہوا کہ جس جگہ بحر فارس اور بحر روم ملتے ہیں وہاں اللہ کا ایک بندہ ہے جو ان سے زیادہ علم رکھتا ہے تو ان کو اللہ کے اس بندہ سے ملنے کی خواہش ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے یوشع بن نون سے کہا (جو یوسف (علیہ السلام) کے پرپوتے تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے زیر تربیت تھے اور جو ان کے بعد اللہ کے نبی ہوئے) کہ ان سے ملنے کے لیے سفر میں ان کا ساتھ دیں تاکہ مطلوبہ جگہ پہنچ سکیں اور ان سے ملاقات ہوجائے، یا پھر ایک طویل مدت تک چلتے رہیں، یہاں تک کہ یقین ہوجائے کہ میرا ان سے ملنا اللہ کے نزدیک مقدر نہیں ہے۔ امام بخاری نے اس ضمن میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے اس سفر کا سبب یہ تھا کہ ایک دن موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے سامنے وعظ کر رہے تھے تو ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ اس دور کا سب سے بڑا عالم کون ہے؟ تو انہوں نے کہا میں، تو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی انہیں خبر دی کہ دونوں سمندروں کے ملنے کی جگہ پر میرا ایک بندہ رہتا ہے جو آپ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ چنانچہ ان کو اللہ کے اس بندے خضر سے ملنے کا شوق پیدا ہوا، اس سفر میں اور دونوں کی ملاقات کے بعد جو کچھ پیش آیا، قرآن نے ان باتوں کو آئندہ آیتوں میں بیان کیا ہے۔