وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَىٰ وَيَسْتَغْفِرُوا رَبَّهُمْ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ قُبُلًا
لوگوں کے پاس ہدایت آچکنے کے بعد انھیں ایمان لانے اور اپنے رب سے استغفار کرنے سے صرف اس چیز نے روکا کہ اگلے لوگوں کا سا معاملہ انھیں بھی پیش آئے (١) یا ان کے سامنے کھلم کھلا عذاب آ موجود ہوجائے (٢)
(٣٢) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ اور ہر زمانے کے کافروں کا حال بیان کیا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ہی تمرد کی راہ اختیار کی اور ہزار دلائل و براہین کے باوجود حق کو جھٹلانے کی کوشش کی اور سب نے یہی مطالبہ کیا کہ جس عذاب کی انہیں دھمکی دی جارہی ہے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یعنی کفار ایمان و استغفار پر اس وقت آمادہ ہوتے ہیں جب دنیا میں عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں، یا جب آخرت میں جہنم کو دیکھ لیں گے اور دونوں ہی حالتوں میں ان کا ایمان و استغفار کسی کام کا نہیں۔