سورة البقرة - آیت 204

وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَىٰ مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بعض لوگوں کی دنیاوی غرض کی باتیں آپ کو خوش کردیتی ہیں اور وہ اپنے دل کی باتوں پر اللہ کو گواہ کرتا ہے حالانکہ دراصل وہ زبردست جھگڑالو ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

294: ابن جریر نے سدی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ اس شخص نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس آ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا، حالانکہ وہ دل سے کافر تھا۔ ابن عباس (رض) کی ایک روایت کے مطابق منافقین کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جنہوں نے خبیب (رض) اور ان کے ساتھیوں کا مذاق اڑایا تھا۔ بہرحال مشہور قاعدہ کے مطابق کہ قرآن و سنت سے استفادہ کے لیے عموم لفظ کا اعتبار ہوتا ہے، خصوص سبب کا نہیں، یہ آیت ہر اس شخص پر صادق آتی ہے جو اسلام کو عقیدہ اور منہج حیات کی حیثیت سے قبول نہیں کرتا، لیکن دنیوی مصالح کی خاطر اعلان کرتا پھرتا ہے کہ وہ بھی مسلمان ہے۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کچھ ایسے منافقین ہوتے ہیں جو مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے چکنی چپڑی باتیں کرتے ہیں، اور اللہ کو اپنے قول و فعل کی صداقت پر گواہ بناتے ہیں، حالانکہ وہ باطل کو حق دکھانے کے لیے بد ترین جھگڑالو ہوتے ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا ہے کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو دھوکہ دیتا ہے، اور جب جھگڑتا ہے تو گالی گلوچ پر اتر آتا ہے۔ (متفق علیہ)