سورة الإسراء - آیت 57

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہوجائے وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہتے ہیں، (١) (بات بھی یہی ہے) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

آیت (57) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام، عزیر علیہ السلام، فرشتے، جن اور دیگر صالحین، جنہیں یہ مشرکین پکارتے ہیں یہ سب تو خود اعمال صالحہ کے ذریعہ اللہ کی جناب میں قربت چاہتے ہیں، اللہ کی رحمت کی امید لگائے رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں اس لیے کہ اس کا عذاب وہ عذاب ہے جس سے تمام ارباب عقل و خرد پناہ مانگتے ہیں تو جو خود اپنے انجام سے واقف نہیں اور جو اللہ کی رضا کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں وہ معبود کیسے ہوسکتے ہیں؟ ان کی عبادت کیسے کی جاسکتی ہے؟ میں اس طرف اشارہ ہے کہ عبادت کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ نیک اعمال کرے گا اور جب اس کے عذاب سے ڈرے گا تو گناہ کرنے سے پرہیز کرے گا۔