سورة البقرة - آیت 200

فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر جب تم ارکان حج ادا کر چکو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے آباؤ اجداد کا ذکر کیا کرتے تھے، بلکہ اس سے بھی زیادہ (١) بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں دے۔ ایسے لوگوں کا آخرت میں بھی کوئی حصہ نہیں۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

287: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اعمالِ حج سے فراغت کے بعد ذکر کا حکم دیا ہے، کہ اللہ کی توفیق سے یہ عظیم عبادت پوری ہوگئی تو اس کا شکر بجا لانا چاہئے۔ اہل جاہلیت کا دستور تھا کہ مزدلفہ سے منی واپسی کے بعد جمرات کے پاس میلہ لگاتے اور اپنے آباء و اجداد کی شان میں قصیدے پڑھتے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اللہ کو یاد کرتے، اسی لیے اللہ نے مسلمانوں کے فکری دھارے کی اصلاح کی اور انہیں تعلیم دی کہ وہ اللہ کو یاد کریں، اس لیے کہ ذکر و شکر کا وہی اکیلا حقدار ہے۔ اس لیے کنکری مارنے کے بعد جب حجاج قربانی، بال منڈانے، طواف زیارت اور صفا و مروہ کی سعی سے فارغ ہو کر منی میں قیام پذیر ہوجائیں تو اللہ کے ذکر میں مشغول رہیں۔ 288: استغفار اور کثرت ذکر کی نصیحت کے بعد اللہ تعالیٰ نے دعا کی طرف توجہ دلائی، اس لیے کہ کثرت ذکر کے بعد دعا کی قبولیت کی زیادہ امید ہوتی ہے اور ان لوگوں کی مذمت کی جن کی زندگی کا مقصود اول دنیا کا حصول ہوتا ہے، اور ان کی تعریف کی جن کا مطمع نظر آخرت کی کامیابی اور جہنم کی آگ سے نجات حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ کچھ اعرابی لوگ عرفات میں اللہ سے دنیاوی فائدہ مانگتے اور آخرت کا کوئی ذکر نہیں لاتے، بعض نے کہا کہ مشرکین عرب ایسا کرتے تھے، کسی نے کہا کہ بعض مسلمان ہی ایسا کرتے تھے کہ اپنی دنیا سنورنے کی دعا کرتے، اور آخرت کو فراموش کرجاتے، انہی لوگوں کے حالات کے پیش نظر یہ آیت نازل ہوئی۔ 289: یعنی آخرت کی کامیابی کا کوئی حصہ ان کو نہیں ملے گا، الا یہ کہ وہ توبہ کریں اور اللہ انہیں معاف کردے۔