سورة الإسراء - آیت 34

وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۚ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ بجز اس طریقہ کے جو بہت ہی بہتر ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کو پہنچ جائے (١) اور وعدے پورے کرو کیونکہ قول و قرار کی باز پرس ہونے والی ہے (٢)۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(23) جان کی حفاظت کا حکم دینے کے بعد اب مال کی حفاظت کا حکم دیا جارہا ہے، اور چونکہ یتیم کا اللہ کے علاوہ کوئی مضبوط سہارا نہیں ہوتا، اس لیے اس کے مال پر بد نیت لوگوں کی نگاہ لگی رہتی ہے، اسی لیے سب سے پہلے اس کے مال کی حفاظت کا حکم دیا گیا اور اس بارے میں انتہائی احتیاط کی تعلیم دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ، ہاں اگر نیت یہ ہو کہ اس کی دیکھ بھال کی جائے، تجارت کر کے اسے ترقی دی جائے تو پھر اس میں تصرف کرنا جائز ہے، یہاں تک کہ یتیم بالغ ہوجائے اور عقلی طور پر اپنے مال میں صحیح تصرف کرنے کے قابل بن جائے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگوں کے ساتھ تمہارے جو عقود اور معاہدے ہوں ان کی پابندی کرو اور دھوکہ نہ دو، اس لیے کہ قیامت کے دن بندوں سے عہود و مواثیق کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا اور اگر کسی نے بے سبب نقض عہد کیا ہوگا تو اس دن اس کی سزا اسے بھگتنی ہوگی۔