وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا
اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کرلیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو (کچھ) حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر (عذاب کی) بات ثابت ہوجاتی ہے پھر ہم اسے تباہ و برباد کردیتے ہیں (١)۔
(10) جس عذاب کا اوپر ذکر آیا ہے اسی کا سبب بیان کیا جارہا ہے اور اس طرف اشارہ ہے کہ اس سے مراد دنیاوی عذاب ہے، آیت کا معنی یہ ہے کہ جب ہم کسی قوم کو عذاب کے ذریعہ ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس کے عیش پرستوں اور ناز و نعم میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو اپنے رسول کی زبانی طاعت وبندگی کا حکم دیتے ہیں، لیکن وہ لوگ ہمارے حکم کی مخالفت کرتے ہیں اور سرکشی اور تمرد ان کا شیوہ بن جاتا ہے، تو ان پر عذاب کا نزول واجب ہوجاتا ہے، پھر ہم انہیں یکسر تباہ و برباد کردیتے ہیں، جیسا کہ بیت المقدس والوں کے ساتھ ہوا کہ جب یہود نے اللہ کے دین کو پس پشت ڈال دیا تو ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کردیا۔ آیت کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب ہم کسی قوم کو عذاب کے ذریعہ ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس میں فاسقوں اور فاجروں کی تعداد بڑھا دیتے ہیں جو کثرت کے ساتھ فسق و فجور کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اگرچہ اللہ کا حکم تمام لوگوں کو شامل ہوتا ہے لیکن یہاں عیش کوشوں کا ہی ذکر اس لیے آیا ہے کہ دنیا میں شر و فساد پھیلانے والے درحقیقت یہی لوگ ہوتے ہیں پھر دوسرے لوگ ان کی پیروی کرنے لگتے ہیں۔