وَيَدْعُ الْإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ ۖ وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا
اور انسان برائی کی دعائیں مانگنے لگتا ہے بالکل اس کی اپنی بھلائی کی دعا کی طرح، انسان ہی بڑا جلد باز ہے (١)
(5) مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ قرآن جو ہادی ہے اس کا حال بیان کرنے کے بعد اب انسان جو مہتدی ہے اس کا حال بیان کیا جارہا ہے، اور ان دونوں کے درمیان جو تباین پایا جاتا ہے اسے اجاگر کیا جارہا ہے، اور انسان سے مراد جنس انسان ہے جس کے بعض افراد کا حال یہاں بیان کیا گیا ہے یا بعض اوقات میں اس کی جو حالت ہوتی ہے اسے یہاں بیان کیا گیا ہے۔ پہلی صورت میں آیت کا معنی یہ ہوگا کہ قرآن انسان کو اس بھلائی کی طرف بلاتا ہے جس سے بڑھ کر کوئی بھلائی نہیں ہے اور اس شر (یعنی عذاب الیم) سے ڈراتا ہے جس کے بعد کوئی شر نہیں اور کافر جو انسان ہوتا ہے اپنے لیے برائی چاہتا ہے یا تو اپنی زبان کے ذریعہ یا اپنے اعمال کے ذریعہ۔ اور دوسری صورت میں معنی یہ ہوگا کہ قرآن تو انسان کو بھلائی کی طرف بلاتا ہے لیکن وہ خود بعض اوقات جب غصہ میں ہوتا ہے تو اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے بد دعائیں کرتا ہے اور دونوں ہی حالتوں میں انسان بڑا ہی جلد باز ہوتا ہے، صبر سے کام نہیں لیتا اور حالات بدل جانے کا انتظار نہیں کرتا۔