الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ
حج کے مہینے مقرر ہیں (١) اس لئے جو شخص ان میں حج لازم کرلے وہ اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے (١) تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہتر توشہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے (٢) اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔
282: حج کے مہینے معلوم ہیں، اس لیے کہ حج ملتِ ابراہیمی میں اور ابراہیم کی ذریت میں ہمیشہ سے رہا، اور وہ ماہ شوال و ذی القعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔ حج کا احرام انہی دنوں میں باندھنا صحیح ہے، اور جو کوئی ان مہینوں میں حج کی نیت کرے اس پر احرام کی تعظیم واجب ہے اور اس تعظیم کا تقاضا یہ ہے کہ محرم جماع، اور اس کے مقدمات، تمام قسم کے گناہ اور جنگ و جدال سے پرہیز کرے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا ہے کہ جس نے اس گھر کا حج کیا، اور جماع اور دیگر گناہوں سے بچا رہا، وہ گناہوں سے ایسا ہی پاک ہوگیا جیسے اس دن تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا، متفق علیہ۔ اور چونکہ ترک معاصی کے ساتھ اوامر کا بجا لانا بھی ضروری ہے، اس لیے اللہ نے فرمایا کہ تم کوئی بھی نیکی کروگے، اللہ اسے جانتا ہے۔ 283: اہل یمن جب حج کے لیے آتے تو اپنے ساتھ زاد راہ نہ لاتے، اور کہتے کہ ہم نے اللہ پر توکل کیا ہوا ہے، اور جب مکہ پہنچتے تو لوگوں سے بھیک مانگتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، کہ تم لوگ جب حج کے لیے نکلو تو اپنا زاد راہ لے کر چلو تاکہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عقل و خرد والو ! میرے عقاب و عذاب سے ڈرو، اور میرے اوامر و نواہی کی مخالفت نہ کرو۔