إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
ہفتے کے دن کی عظمت تو صرف ان لوگوں کے ذمے ہی ضروری تھی جنہوں نے اس میں اختلاف کیا تھا، (١) بات یہ ہے کہ آپ کا پروردگار خود ہی ان میں ان کے اختلاف کا فیصلہ قیامت کے دن کرے گا۔
(76) اس آیت کریمہ کا ماقبل والی آیت سے یہ تعلق ہے کہ یہود کہتے تھے کہ سینچر کے دن کی تعظیم ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کا حصہ تھا، انہی کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نہ ابراہیم کے دین کا حصہ تھا نہ ہی کسی اور نبی کے دین کا، اسے اللہ تعالیٰ نے ان یہود پر فرض کردیا تھا جنہوں نے اس میں اختلاف کیا تھا ان کے اس اختلاف کی تفصیل یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ جمعہ کا دن افضل ہے، تو انہوں نے عناد میں آکر کہا کہ سینچر کا دن افضل ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے کہا کہ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے، دوسرا قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاری کو حکم دیا کہ وہ ہفتہ میں کسی ایک دن کی تعظیم کریں تو انہوں نے آپس میں اختلاف کیا اور یہود نے سینچر کا دن پسند کیا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اسی دن تمام مخلوقات کی تخلیق سے فارغ ہوا تھا، اور نصاری نے اتوار کا دن پسند کیا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی دن تمام مخلوقات کو پیدا کرنا شروع کیا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے دونوں کے لیے ان کے پسند کیے ہوئے دن کی تعظیم کو لازم کردیا، اور اس امت کے لیے اس نے اپنے فضل و کرم سے جمعہ کا دن پسند کیا جو ان کے لیے ہر طرح بابرکت دن ثابت ہوا۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ قیامت کے دن انہیں دین میں اختلاف کرنے زمین میں فساد پھیلانے اور راہ حق سے برگشتہ ہونے کا بدلہ ضرور دے گا۔