قُل لِّعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَالٌ
میرے ایمان دار بندوں سے کہہ دیجئے کہ نمازوں کو قائم رکھیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے رہیں اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوستی اور محبت (١)۔
(22) گذشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والوں اور اس کے ساتھ غیروں کو شریک بنانے والوں کے بارے میں اللہ نے اپنے رسول (ﷺ) کو حکم دیا کہ وہ انہیں بتا دیں کہ ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا، اسی لیے قرآن کریم کے طریقہ کے مطابق اب اللہ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ مؤمنین کو کہہ دیں کہ تم لوگ نماز قائم کرو اور اللہ نے جو روزی دی ہے اس میں سے چھپا کر اور دکھلا کر اللہ کی راہ میں خرچ کرو یعنی زکاۃ ادا کرو، رشتہ داروں پر خرچ کرو اور غیروں کی بھی مدد کرو، اس دن کے آنے سے پہلے جب کسی کی جانب سے کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا، کہ کوئی معاوضہ دے کر اللہ کے عذاب سے جانبر ہوجائے، اور نہ کوئی دوستی کام آئے گی کہ کوئی دوست اپنے دوست کے لیے اللہ کے یہاں سفارش کرے اور اسے عذاب سے نجات دلا دے۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیاوی زندگی میں راہ خیر میں خرچ کرنے کا حکم دیا ہے جب آدمی خرچ کرنے پر قادر ہوتا ہے، اس قیامت کے دن سے قبل جب وہ اس پر قادر نہیں ہوگا بلکہ وہاں کسی کے پاس مال ہی نہیں ہوگا، اور آیت کے آخری حصے : میں گزشتہ حکم کی تاکید ہے۔ صاحب فتح البیان لکھتے ہیں کہ اس آیت میں قیامت کے دن دوستی کی نفی کی گئی ہے اور سورۃ الزخرف آیت (67) میں اس دن دوستی کو ثابت کیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ کی خاطر دوستی کو ثابت کی گئی ہے، یعنی صرف متقیوں کے لیے ثابت کی گئی ہے اور دوسروں سے اس کی نفی کی گئی ہے، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ قیامت کے دن مختلف حالات ہوں گے، بعض حالات میں ہر دوست اپنے دوست کو پہچاننے سے انکار کردے گا، اور بعض حالات میں مؤمنین صالحین اپنے ہی جیسے مؤمن و صالح دوستوں سے اظہار ہمدردی کریں گے۔