أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ بات کی مثال کس طرح بیان فرمائی، مثل ایک پاکیزہ درخت کے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں۔
(19) مندرجہ ذیل آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مثال کے ذریعہ کفر و شرک اور حق و باطل کے درمیان فرق واضح کیا ہے، کلمہ اسلام لا الہ الا اللہ کو کلمہ طیبہ اور کلمہ شرک کو کلمہ خبیثہ کہا ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ کلمہ طیبہ سے ہر کلمہ خیر اور کلمہ خبیثہ سے ہر کلمہ شر مراد ہے۔ کلمہ طیبہ کی مثال اس ہرے بھرے لہلہاتے خوبصورت درخت کی ہے جس سے بھینی بھینی خوشبو پھوٹتی ہے، جس کے پھل بہت ہی لذیذ اور مفید ہوتے ہیں اور جس کی جڑیں زمین میں اتنی گہری ہوتی ہیں کہ اس کے اکھڑنے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا، ایسے درخت کو دیکھ دیکھ کر اس کے مالک کو بڑی خوشی ہوتی ہے، اور جس کی شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں گویا وہ ہر طرح سے ایک مکمل اور مفید درخت ہوتا ہے، اس کا پھل عمدہ اور مفید ہوتا ہے اور ہر موسم میں تیار ہوتا رہتا ہے، کبھی بھی ختم نہیں ہوتا۔