وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
(یاد رکھو جب کہ) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ تو اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی میں نکال (١) اور انھیں اللہ کے احسانات یاد دلا (٢) بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر صبر شکر کرنے والے کے لئے (٣)۔
(5) تمام انبیاء کی بعثت کا مقصود یہ تھا کہ وہ اپنی امتوں کو راہ راست پر چلنے کی دعوت دیں، ان انبیاء میں موسیٰ (علیہ السلام) ایک بڑے نبی اور رسول تھے، جن کا واقعہ یہاں بطور مثال بیان کیا گیا ہے اور ِأَيَّامِ اللَّهِ سے مراد ان قوموں کی ہلاکت کے واقعات ہیں جو قوم موسیٰ سے پہلے گزر چکی تھیں جیسے قوم نوح اور قوم لوط وغیرہ۔ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ اس سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو اللہ نے قوم موسیٰ کو دی تھیں، اور سر فہرست یہ نعمت کہ انہیں فرعون کے ظلم و طغیان سے نجات دی تھی اور سے مراد وہ مؤمنین ہیں جو مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں اور نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور جب گزشتہ قوموں کی بربادی یا ان پر اللہ کی نعمتوں کی بارش کی داستانیں سنتے ہیں تو فورا چوکنا ہوتے ہیں، اپنا محاسبہ کرتے ہیں اور صبر و شکر کی زندگی اختیار کرتے ہیں۔