الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ
یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں (١) ان کے پروردگار کے حکم (٢) سے زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف۔
(1) الر، یہ حروف مقطعات ہیں، ان کا معنی اللہ ہی جانتا ہے۔ کتاب سے مراد قرآن کریم ،ظلمات سے کفر و ضلالت اور بدعت و جہالت کی تاریکی،اور نور سے ایمان و ہدایت اور قرآن وسنت کی روشنی ہے، یعنی نبی کریم (ﷺ) قرآن کریم میں مذکور تعلیمات الہیہ کی روشنی میں انسانوں کو اللہ کے حکم اور اس کی مشیت کے مطابق کفر کی تاریکی سے نکال کر دین اسلام کی روشنی تک پہنچا دیتے ہیں۔ ہدایت دینے والا اللہ ہے، یہاں اس کی نسبت رسول اللہ (ﷺ) کی طرف اس لیے کی گئی ہے کہ داعی اور رہنما وہی ہیں۔ اسی لیے کہا گیا ہے، یعنی اللہ کی مرضی اور اس کی مشیت سے ہی کسی کو ہدایت ملتی ہے۔ امام رازی لکھتے ہیں کہ ظلمات بلفظ جمع اور نور بلفظ مفرد اس بات کی دلیل ہے کہ کفر و بدعت کی راہیں بہت اور حق کا راستہ صرف ایک ہے۔ انتہی۔ اللہ کا راستہ مجسم نور ہے جسے اختیار کر کے آدمی ہمیشہ رہنے والی جنت تک پہنچ جاتا ہے، ور اس راہ کی نسبت اللہ کی طرف ہونے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس راہ کا مسافر بھٹکتا نہیں اور اللہ کی توفیق سے منزل مقصود کو پالیتا ہے۔