سورة الرعد - آیت 6

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور جو تجھ سے (سزا کی طلبی میں) جلدی کر رہے ہیں راحت سے پہلے ہی، یقیناً ان سے پہلے سزائیں (بطور مثال) گزر چکی ہیں (١) اور بیشک تیرا رب البتہ بخشنے والا ہے لوگوں کے بے جا ظلم پر (٢) اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ تیرا رب بڑی سخت سزا دینے والا بھی ہے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(6) نبی کریم (ﷺ) اور قرآن کریم کی تکذیب کرنے والے آپ کا مذاق اڑاتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو جس عذاب کی بات کرتے ہو وہ آ کیوں نہیں جاتا، یعنی بجائے اس کے کہ وہ اللہ سے عافیت اور سلامتی مانگتے، عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں، حالانکہ ان سے پہلے ایسی قومیں گزر چکی ہیں جنہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تو اللہ نے ان پر عذاب نازل کردیا، پھر وہ لوگ ان کے انجام سے عبرت کیوں نہیں حاصل کرتے ہیں اور ڈرتے کیوں نہیں کہ کہیں انہیں بھی عذاب الہی اپنی گرفت میں نہ لے لے۔ (7) اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو شخص گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد اللہ کی جناب میں تائب و نادم ہوگا، وہ اسے معاف کردے گا، بعض لوگوں نے یہاں مغفرت سے مراد قیامت کے دن تک سزا کی تاخیر لیا ہے، اور الناس سے وہ کفار و مشرکین مراد لیے ہیں جو عذاب کی جلدی کرتے تھے، اور کہتے ہیں کہ آیت کا آخری حصہ اسی معنی کی تائید کرتا ہے یعنی قیامت کے دن آپ کا رب اگر چاہے گا تو انہیں بڑی سخت سزا دے گا۔