قَالُوا أَإِنَّكَ لَأَنتَ يُوسُفُ ۖ قَالَ أَنَا يُوسُفُ وَهَٰذَا أَخِي ۖ قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا ۖ إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
انہوں نے کہا کیا (واقعی) تو ہی یوسف (علیہ السلام) ہے (١) جواب دیا کہ ہاں میں یوسف (علیہ السلام) ہوں اور یہ میرا بھائی ہے اللہ نے ہم پر فضل و کرم کیا بات یہ ہے کہ جو بھی پرہیزگاری اور صبر کرے تو اللہ تعالیٰ کسی نیکوکار کا اجر ضائع نہیں کرتا (٢)۔
(77) بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کے اس سوال سے انہیں پہچان لیا، اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ یوسف کا واقعہ ان کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا تھا، اور بے حد حیرت و استعجاب کا اظہار کرتے ہوئے کہا، کیا آپ ہی یوسف ہیں؟ یقینا آپ ہی یوسف ہیں، تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں یوسف ہوں اور یہ میرا سگا بھائی بنیامین ہے، اللہ نے ہم پر احسان کیا ہے کہ آزمائشوں کا دور ختم ہوگیا، ایک مدت کی جدائی کے بعد دونوں بھائی مل گئے ہیں، اور ذلت کے بعد عزت اور وحشت و تنہائی کے بعد انس و قربت نصیب ہوئی ہے، اس کے بعد انہوں نے سبب بیان کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ہر حال میں ڈرتا رہتا ہے، اور تکلیفوں پر صبر کرتا ہے، تو اللہ ایسے اچھے لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتا ہے، آیت میں اشارہ ہے کہ متقی اور صابر انسان ہی اللہ کے نزدیک صفت احسان کا مستحق ہوتا ہے۔