فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّ اللَّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ
پھر جب یہ لوگ یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے (١) تو کہنے لگے کہ اے عزیز! ہم کو اور ہمارے خاندان کو دکھ پہنچا ہے (٢) ہم حقیر پونجی لائے ہیں پس آپ ہمیں پورے غلے کا ناپ دیجئے (٣) اور ہم پر خیرات کیجئے (٤) اللہ تعالیٰ خیرات کرنے والوں کو بدلہ دیتا ہے۔
(75) باپ کے حکم کے مطابق باقی ماندہ بھائیوں نے تیسری بار مصر کا سفر کیا، اور عزیز مصر کے دربار میں حاضری دی اور کہا کہ جناب عالی ! ہم اور ہمارے بال بچے قحط اور خشک سالی کی وجہ سے بہت پریشان ہیں، اور بہت ہی تھوڑی رقم لے کر آئے ہیں (انہوں نے یہ انداز بیان بادشاہ کے دل میں اپنے لیے ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے اختیار کیا تھا) لیکن آپ اپنے جود و سخا سے ہمیں اناج پہلے کی طرح پورا دیجیے اور رقم کم ہونے یا اس کے بے وقعت ہونے کا خیال نہ کیجیے، اللہ تعالیٰ صدقہ اور بھلائی کرنے والوں کو ضرور اچھا بدلہ دیتا ہے۔