وَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَىٰ عَلَىٰ يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ
پھر ان سے منہ پھیر لیا اور کہا ہائے یوسف! (١) ان کی آنکھیں بوجہ رنج و غم کے سفید ہوچکی تھیں (٢) اور وہ غم کو دبائے ہوئے تھے۔
اس کے بعد یعقوب (علیہ السلام) نے کہا کہ مجھے امید ہوچکی ہے کہ میرا اللہ میرے تینوں بیٹوں (یوسف، بنیامین اور روبین) کو مجھ سے ملا دے گا، انہیں پہلے سے کچھ اندازہ تھا کہ یوسف زندہ ہیں، لیکن مفقود الخبر ہیں، یہ کہہ کر انہوں نے اپنے بیٹوں سے منہ پھیر لیا، اور یوسف کی گمشدگی پر شدید حزن و ملال کا اظہار کرنے لگے، اس لیے کہ ان کی مصیبتوں کی ابتدا انہی کی گمشدگی سے ہوئی تھی، وہ گم ہوئے، پھر بنیامین غلام بنا لیے گئے، اور بڑے بیٹے نے بنیامین کے حادثے سے متاثر ہو کر مصر میں ہی غریب الوطنی کی زندگی اختیار کرلی، اور باپ کو منہ دکھانا پسند نہیں کیا۔ یعقوب یوسف کے گم ہونے کے بعد گھٹ گھٹ کر اتنا روئے کہ مسلسل آنسو بہتے رہنے سے آنکھیں سفید ہوگئیں، مفسرین لکھتے ہیں کہ کسی مصیبت یا کسی چہیتے کی موت یا گمشدگی پر غم کرنا حرام نہیں ہے۔ حرام یہ ہے کہ آدمی چیخ و پکار کرے، گریبان پھاڑے اور ایسی باتیں کرے جو صبر و استقامت کے خلاف ہوں، نبی کریم (ﷺ)نے اپنے بیٹے ابراہیم کی موت پر کہا تھا، آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل مغموم ہے، اور ہم کوئی ایسی بات نہیں کہیں گے جس سے اللہ ناراض ہو، اور اے ابراہیم ! ہم تیری جدائی پر غمگین ہیں۔ آیت کے آخری حصہ میں اشارہ ہے کہ ان کا دل غم سے متاثر تھا اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔